Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

عظیم سپہ سالارسلطان ٹیپوؒاور مذہبی رواداری

ماہنامہ عبقری - اپریل 2018ء

سلطان نے کئی فرانسیسی عیسائیوں کو اپنی سلطنت میں عہدے سپرد کر رکھے تھے آرمینیہ کے عیسائی تاجروں کو بھی اپنے ملک میں آکر تجارت کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ان کی مالی پشت پناہی بھی کی۔ گو اسے تارکین وطن عیسائیوں کو دوبارہ اپنی سلطنت میں لاکر بسایا۔

سرزمین ہندکی پرامن فضائوں میں آزادانہ سانس لیتے ہوئے دورِ فرنگی کا تذکرہ چھڑتا رہتا ہے اور شہدائے چمن کی قربانیوں اور مدح سرائیوں کی مجالس جمتی رہتی ہیں، یہ مجالس اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتیں جب تک ان میں ٹیپو سلطانؒ کا تذکرہ نہ ہو۔یہ سچ ہے کہ سلطانؒ جنگِ آزادی کے سرخیل تھے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی خوبیاں ان میں موجود تھیں جن سے لوگ نا آشنا ہیں۔مندروں پر عنایات:ٹیپو سلطانؒ نے مسجدوں اور مندروں کے درمیان کبھی کوئی امتیاز روا نہیں رکھا، جس طرح مسجدوں پر سلطانؒ کی نظریں رہیں اسی طرح مندروں پر بھی ان کی عنایات رہیں جن کا اندازہ مندرجہ ذیل چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے۔تعلقہ ننجن گڑھ (Nanjangarh) کے کلالے نامی گائوں میں واقع لکشمی کا نتھ مندر میں چاندی کے چار پیالے، ایک پلیٹ اور ایک اگال دان اب بھی دیکھا جاسکتا ہے، جو ٹیپو سلطان شہیدؒ نے اس مندر کو بطور نذرانہ دیا تھا۔خود سری رنگا پٹنم (Srirangapatna) کے رنگناتھ مندر کو سلطانؒ نے ایک کا فور دان اور چاندی کے سات پیالے دیئے تھے اور یہ چیزیں آج تک اس مندر میں موجود ہیں۔ مقدم الذکر شہر کے ایک اور مندر سرکینشور کو ایک مرصع پیالہ جس کے نچلے حصے میں پانچ قیمتی جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ عطاکیا اور نارائن سوامی مندر کو قیمتی جواہرات سے آراستہ بہت سے برتن ، ایک نقارہ اور بارہ ہاتھی عنایت کیے تھے۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۸)مندروں کی پاسبانی /پاسداری: سلطانؒ مندروں پر فقط خزانے لٹا کر عہدہ برآنہ ہوئے ، بلکہ کئی مندروں کی مشکل اوقات میں حفاظت بھی کی ہے۔ ڈنڈیگل (Dindigul)تعلقہ پر حملہ کرتے ہوئے سلطانؒ نے اس کے عقبی حصہ سے گولہ باری کروائی تھی جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ راجہ کا وہ مندر حملوں کی زد میں نہ آنے پائے جو قلعہ کے اگلے حصہ میں واقع تھا۔مالا بار (Malabar) میں گروایوار پر قبضہ کے دوران وہاں کے ایک مندر کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کرنے والے کچھ مسلمان سپاہیوں کو سلطانؒ نے سزائیں بھی دلوائیں اور اسی وقت مندر کی مرمت بھی کروائی۔کانجی ورم (Kanjivaram)کے اس مندر کی تکمیل کے لئے (جس کی بنا ۱۷۸۰ میں سلطان حیدر علی نے رکھی تھی مگر تکمیل نہ ہوسکی تھی) سلطان نے دس ہزار روپیہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس موقع پر ہونے والی آتش بازیوں کی مصارف بھی خود برداشت کیے تھے۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۸)مندروں اور سوامیوں کا احترام:جب رگھورناتھ رائو (Raghunathrao)کی قیادت میں مرہٹہ دراندازوں اور فتنہ پردازوں نے سرنگیر کے ایک مندر پر حملہ کیا، بیش قیمت املاک لوٹ کر لے گئے اور سارہ دیوی نامی مورتی کو باہر پھینک دیا جس کے نتیجہ میں مندر کے سوامی اور متولی شنکر گروا چاریہ فرار ہوکر شہر کارکل میں پناہ گزیں ہوئے اور سلطان سے حالات کی شکایت کی ، تو سلطانؒ نے جواباً ایک خط سوامی کے نام ارسال کیا جس میں آپؒ نے اس قدر احترام کے ساتھ سوامی کو تسلی دی کہ خلاف معمول گروجی کے نام کو اپنے نام پر مقدم کیا اور اسی پر بس نہیں ، بلکہ ان کو اپنے زیر قبضہ دیہاتوں میں سے کسی بھی چیز کے لینے کا اختیار دیا نیز اس علاقہ کے گورنر سے دو سو اشرفیاں مع غلہ دلوائیں اور سارہ دیوی کو احترام کے ساتھ اس کی جگہ نصب کروا کر اس تقریب کے موقع پر ایک ہزار فقرا کو کھانا کھلوایا (سیرت ٹیپو سلطان شہید: ۴۳۵)۔ہندو عہدے دار مناقب علیا پر:سلطانؒ ہندوئوں کو فقط دور ہی سے نوازتے نہیں رہے بلکہ انہیں بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز کر رکھا تھا۔ سلطنتِ خداداد کا وزیرِ خزانہ ہندو برہمن ’’پورنیا‘‘ تھا۔ یہی ’’پورنیا ‘‘باعتبار اختیارات کے وزیراعظم میر صادق کے بعد سلطانؒ کا نائب دوم بھی تھا۔سلطان کا ذاتی منشی اور معتمدِ خاص ’’لالہ مہتاب رائے سبقت‘‘ نامی ایک ہندو برہمن تھا، جو میدان جنگ میں بھی شاہی کیمپ میں رہتا تھا اور اخیر تک سلطان ؒ کا وفا دار رہا۔میسور کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ہری سنگھ تھا جس کا بھائی بھی باوجود ہندو ہونے کے حکومت کا ایک بڑا عہدیدار تھا، کورگ کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ایک برہمن تھا، علاوہ ازیں تین ہزار کی ایک فوج سردار سیواجی کی کمان میں رہتی تھی، اسی طرح اور بھی کئی مناصبِ علیا پر غیر مسلموں کو فائز کر رکھا تھا۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۴)
حقوق میں مساوات:سلطان ٹیپوؒ نے جس طرح عبادت گاہوں میں برابری اور مساوات کا معاملہ کیا، اسی طرح انسانی حقوق میں بھی بلا تفریق ہندوو مسلم کے مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال قائم کی، جہاں انہوں نے کرشنا رائو اور اس کے بھائیوں کو غداری کی سزا میں تختہ دار پر لٹکایا، وہیں محمد قاسم اور عثمان خان کشمیری کو بھی موت کے گھاٹ اتارا اور جہاں سلطانؒ نے عیسائی غداروں اور نمک حراموں کے پیشوا اور قائدین کو موت کی سزا دی، وہیں ان مسلمان عورتوں کو بھی قتل کیا جنہوں نے انگریز سپاہیوں کے ساتھ بدکاری کی تھی۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۳)عیسائیوں کے ساتھ سلطان کا سلوک:عیسائیوں کے ساتھ بھی سلطانؒ کا رویہ کچھ مختلف نہ تھا، سلطان نے کئی فرانسیسی عیسائیوں کو اپنی سلطنت میں عہدے سپرد کر رکھے تھے آرمینیہ کے عیسائی تاجروں کو بھی اپنے ملک میں آکر تجارت کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ان کی مالی پشت پناہی بھی کی۔ گو اسے تارکین وطن عیسائیوں کو دوبارہ اپنی سلطنت میں لاکر بسایا۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۵)رعایا کے دل میں سلطانؒ کی عقیدت و محبت :رعایا میں سلطان ٹیپو کی عقیدت اس قدر تھی کہ ہندو مذہب کے دو فرقوں واڈ گلائی اور ٹنکالائی کے درمیان اختلاف ہونے پر خود ہندوئوں نے سلطان کو اپنا حکم اور ثالث بنایا تھا۔سلطانؒ کی مذہبی رواداری ہی تو تھی جس نے رعایا کے سینوں میں عقیدت و محبت کے و شعلے فروزاں کیے تھے جنہیں دیکھ کر انگریز بھی ششدر تھے۔ سلطانؒ نے جس جگہ اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کی اسی جگہ سلطانؒ کے سینکڑوں فدائین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جن میں عورتیں بھی تھیں اور جوان لڑکیاں بھی۔ جب سلطان کا جنازہ اٹھایا جانے لگا تو راہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتے ہوئے اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۳) سلطانؒ کی مذہبی رواداری اور بلا تفریق مذہب رعایا سے حسن سلوک ملاحظہ فرمائیں‘غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی رواداری، غیر مسلموں کی خوشی و غم میں شریک ہونے اور ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنے میں سلطانؒ اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ بعض مواقع پر فقہی اعتبار سے اس پر بحث بھی کی جاسکتی ہے۔

 

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 642 reviews.